پارلیمنٹ میں فکس میچ ہو رہا ہے وزیراعظم نے سوالات کا جواب نہیں دیا، ڈاکٹر طاہرالقادری
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دنیا نیوز کے پروگرام آن دی فرنٹ میں کامران شاہد کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیراعظم اور انکے اہل خانہ کو مل بیٹھ کر پانامہ لیکس کے حوالے سے ایک متفقہ بیان تیار کرنا چاہیے۔ تضادات سے جگ ہنسائی ہو رہی ہے، وزیراعظم پارلیمنٹ میں کہتے ہیں میرے والد پاکستان بننے سے پہلے صنعت کار تھے جبکہ میاں شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں کہتے ہیں کہ میرے والد پاکستان بننے سے پہلے کسان تھے جبکہ میاں شریف فخر سے کہتے تھے کہ میں پاکستان بننے کے بعد 12 روپے ماہوار پر ایک آڑھت پر منشی تھا۔ پھر برف کا کارخانہ بنایا اور پھر خراد مشین لگائی، یہاں سے سٹیل کے کاروبار سے وابستگی کی ابتدا ہوئی، انہوں نے کہاکہ میاں شریف با اصول اور محنتی انسان تھے، وہ زندہ ہوتے تو اپنے بیٹوں کے حالات دیکھ کر خون کے آنسو روتے، شریف خاندان مغل شہنشاہ بننے کی کوشش نہ کرے، سیلف میڈ ہونے پر فخر کرے اور سچ بولے۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ جس دن وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں تقریر کی اس دن دونوں طرف سے فکس میچ ہوا۔ واک آؤٹ کر کے وزیراعظم کو سہولت دی گئی، میں نہیں سمجھتا عمران خان اس فکس میچ میں شامل تھے، مگر وہ دو چار ماہ کے بعد کہتے ہوتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘، انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے معاملے کو کوئی مڈ ٹرم اور کوئی آئندہ عام انتخابات کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے اگر اب بھی اس کرپشن پر کارروائی نہ ہوئی تو پھر اس ملک سے کرپشن کبھی ختم نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ 92 ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں آف شور اور شیل کمپنیاں ہیں، پانامہ کی آف شور کمپنیاں کرپشن کے سمندر کا ایک قطرہ ہیں، دنیا بھر کے 5ہزار خاندان ہر سال 20 ارب ڈالر کی کرپشن کر رہے ہیں، ان میں شریف خاندان شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1994 میں نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ لونگ نے ایک ڈنر کے موقع پر مجھے بتایا کہ آپکا وزیراعظم (نواز شریف) ہماری قومی سٹیل مل میں 50 فیصد کا شیئر ہولڈر ہے۔ کوئی بھی ملکی ادارہ نیوزی لینڈ کی حکومت کو خط لکھ کر اس دور کے شیئر ہولڈرز کی تفصیل منگوا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں حقائق کے بر عکس باتیں کیں انہیں سچ بولنا چاہیے تھا، 1972 میں جو گلف سٹیل مل لگی وہ کس پیسے سے لگی کیونکہ انکا سارا پیسہ اور ملیں تو 1971کے بعد نیشنلائز کر لی گئی تھیں، گلف سٹیل مل کی فروخت سے حاصل ہونے والے 9 ملین ڈالر 1980 سے لے کر 2000 تک کہاں پڑے رہے؟ اور 20 سال کا سفر طے کر کے وہ جدہ کیسے پہنچے، پیدل گئے یا کسی کشتی پر اس راز سے پردہ اٹھنا چاہیے کیونکہ اس کے بعد میاں نواز شریف دو بار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم بنے مگر یہ پیسہ کہیں ڈکلئیر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 1972 کے بعد اتفاق فاؤنڈری کی بحالی کس پیسے سے ہوئی اگر یہ بحالی گلف سٹیل کی فروخت کے پیسے سے ہوئی تو پھر جدہ کی سٹیل مل کیسے لگی کیونکہ بقول وزیراعظم پرویز مشرف نے انکا سب کچھ چھین لیا تھا وہ خالی ہاتھ جدہ گئے تھے، جبکہ بچے کوئی اور کہانی بیان کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ لندن کے فلیٹس میں 80 کی دہائی میں شریف خاندان وہاں رہائش پذیر ہوتا تھا یہ 93 اور 94 سے بھی پہلے کے ہیں، جہاں تک کراماتی بچوں کے نام اربوں ڈالرز کی پراپرٹیز کا تعلق ہے تو یہ معجزاتی بچے تو اس وقت نا بالغ تھے، اتنی دولت کیسے کمالی؟ وزیراعظم لاہور میں والدہ کے گھر رہتے ہیں، مری جائیں تو بیوی کے گھر رہائش اختیار کرتے ہیں، تحفے کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں، لندن بیٹوں کے فلیٹس میں رہتے ہیں، انکے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے جب انہوں نے یہ سب خود کمایا تو اپنے نام پر کیوں نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کا پالا ایک بزنس مین سے پڑا ہے اور اپوزیشن میں کوئی بڑا بزنس مین نہیں ہے۔ بزنس مین میٹر ریڈر سے لے کر چیئرمین تک کو خرید لیتا ہے، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی اپنی کرپشن بچانے کیلئے احتجاج ہو رہا ہے، لڑائی اور رسائی ایک ساتھ چل رہی ہے۔ وزیراعظم کے ملک گیر جلسوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ انکی حالت اس وقت روح قبض ہونے سے پہلے والی ہے، میرا انہیں مشورہ ہے کہ 35سال اقتدار اور کاروبار ایک ساتھ کرتے گزار دئیے بہت دولت جمع کر لی اب پاکستان کی جان چھوڑ دیں اور قومی دولت تعلیم، صحت اور انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر لگنے دیں، آخر ایک دن مرنا ہے اور یہ پیسہ قبر میں نہیں جائیگا۔ انسان دولت، عزت میں اضافہ کیلئے جمع کرتا ہے مگر آج ہر ایک کے منہ میں گالی ہے اور عزت خاک میں ملی ہوئی ہے۔
تبصرہ